Urdu Text
stringlengths
2
73.7k
تاش کھیلیں گے
دل سے نزدیک ہیں جو دوست پرانے ہیں بہت
پشاور، پاکستان کی ایک مسجد میں بم دھماکہ ہوا
اسی طرح ریحام خان سے پوچھا جا سکتا تھا کہ بنی گالہ کا ماحول اتنا خراب تھا۔
مجھے یہی کنفیوژن تھی شاید دونوں میں زیادہ فرق نہ ہو۔۔
سماج اور روایت سے یہ تعلق ان کالموں کوپرانا نہیں ہونے دے گا۔
محبت آستان قیصر و کسریٰ سے بے پروا
کیوں نہ تیغ یار کو مشاطۂ الفت کہوں
شاید کہ مر گیا ترے رخسار دیکھ کر
شمالی نصف کرہ میں اس مہينے ميں برسات کا موسم ہوتا ہے
کون لا سکتا ہے تابِ جلوۂ دیدارِ دوست
واہ واہ کیا بات ہے
میرے لئے تو ساقی وہی جام بھر کے لانا
ہے کیا جو کس کے باندھیے؟ میری بلا ڈرے
انتہا پسند ٹرمپ کے ظلم کی شکار ماں
جیو انٹر ٹینمنٹ اور جیو تیز نے اسلامی پروگراموں کو خصوصی طور پر نشر کیا
ان میں سے کچھ جانوروں کو زندہ حالت میں ہی منجمد کردیا گیا تھا۔
عشق نبرد پیشہ طلب گار مرد تھا
یار میں نے کچھ دن پہلے یہاں ایک تھریڈ دیکھا اس میں لکھا تھا ٹیسٹ سیریز وائٹ واش کر دی ہے پاک نے
دور جدید میں عصبیت کا ظہور سیاسی جماعتوں کی صورت میں ہوتا ہے۔
اس کی افادیت بھی پہلے ہی ہے، بعد کا تو تکلف ہی ہے۔
پینے کا صاف پانی پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں کہیں بھی میسر نہیں۔
اس حملے کے بعد یہ سوال بھی اٹھا کہ تعلیمی اداروں کو اپنی سکیورٹی بہتر کرنی چاہیے۔
میرے واحد ساتھی مولانا اختر احسن ہی تھے
قطرہٴ مے بسکہ حیرت سے نفس پرور ہوا
ان کے پاس بڑی تجربہ کار، منجھی ہوئی، پروفیشنل انداز میں کام کرنے والی انتخابی مشینری ہے۔
ان کا علاج ہونا چاہیے۔
سب سے پہلے
واں کرم کو عذرِ بارش تھا عناں گیرِ خرام
آہ بے اثر دیکھی، نالہ نارسا پایا
تمثالِ جلوہ عرض کر اے حسن! کب تلک
نظام کہیں بھی مکمل نہیں ہوتا معاشرتی قوت نظام کی کمزوریوں کا مداوا کرتی ہے۔
امریکہ میں اقتصادی جاسوسی کے تناظر میں بھی کچھ مسائل اٹھائے گئے
ساری کوششوں کے بعد ڈاکٹر نے ہمدردی سے طلعت کی طرف دیکھا
پاکستان اور ہندوستان کی سیاسی دادا گری نے ایک دوسرے سے جدا کیا ہوا ہے
نہ جانوں نیک ہوں یا بد ہوں پر صحبت مخالف ہے
اس وقت میرے سامنے لاہور کی ایک معروف دینی درس گاہ کے دارالافتاء کا فتوی رکھا ہے۔
آزاد و گرفتار و تہی کیسہ و خورسند
وہ مرد مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو
نورہ کا استعمال انبیائے الہی کی سنت
جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
اب بوجوہ تعلیمی ادارے کی نوعیت تبدیل ہو چکی وہ چند گھنٹے کی تعلیم کے لیے ہے۔
وہ ہاتہی ہے
مے فرنگ کا تہ جرعہ بھی نہیں ناصاف
اسی سوال نے ایک دوسرے سوال کو انگیخت کیا کیا جمہوریت پسندوں کو اس کا احساس ہے؟
ایجنڈے کے مطابق کل ہی اسپیکر قومی اسمبلی کا الیکشن اور حلف برداری ہوگی۔
وائرس کے متعلق ایک خیال یہ بھی ہے کہ یہ کسی جانور سے شروع ہوا
بچھڑ گیا تو بظاہر کوئی ملال نہیں
دنیا مانتی ہے کہ ہمارا ایٹمی پروگرام ایک محفوظ نظام کے تابع ہے۔
مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے
دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد کام نہنگ
مری نوا میں نہیں طائر چمن کا نصیب
نہانے کے بعد پورے بدن پرمہندی لگائیں
نواز شریف ریاض کانفرنس میں شریک تو ہوئے لیکن تعلقات میں دراڑ پڑ چکی تھی۔
شکوہ و شکر کو ثمر بیم و امید کا سمجھ
ہوں میں
قفس میں ہوں گر اچھا بھی نہ جانیں میرے شیون کو
سہمے سہمے ہاتھوں نے اک کتاب پھر کھولی
دھمکیوں کا سامنا رہا ہے
امت کو دشمن کی ناپاک سازشوں سے آگاہی
سنائے کون اسے اقبالؔ کا یہ شعر غریب
شہیدِ تشنہ لبِ کربلا کہیں اُس کو
غالب کی زمین میں چند اشعار کہنے کی جسارت
کیونکہ اس شخص نے گرمی
بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لیے
اس قسم کی قتل وغارت کے حوالے سے دو ہی کیمپ ہوتے ہیں۔
ڈھانپا کفن نے داغِ عیوبِ برہنگی
اکستان تحریک انصاف آزادجموں وکشمیر کی
نظر میں کھٹکے ہے بن تیرے گھر کی آبادی
اس نے اس مسئلے پہ شور مچائے رکھا اور ایک آدھ مارچ بھی اسلام آباد کی طرف کیا۔
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
اس انتخاب سے تو یہی بات مستحکم ہوئی کہ وہ تحریک انصاف کا چناؤ کر چکا ہے۔
ڈالا نہ بیکسی نے کسی سے معاملہ
لگاؤ اس کا ہے باعث قیامِ مستی کا
اس دوران میں سارا قانونی عمل بظاہر شفاف ہے۔
پس منظر میں جذبات کارفرما ہوتے ہیں یا تعصبات مذہب خیر کی ایک قوت ہے۔
بیدادِ عشق سے نہیں ڈرتا، مگر اسد!
لاہور پر قبضہ کرنے کے بعد محمود غزنوی نے اپنے پسندیدہ غلام ملک ایاز کو لاہور کا گورنر مقرر کیا
یہ سب چیزیں روزے سے حاصل ہو سکتی ہیں
قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
ان کے انتقال کی رات پورے ملک پر گویا سناٹا سا چھا گیا۔
دکھاؤں گا تماشا دی اگر فرصت زمانے نے
مزید باتیں کرنے کا وقت نہیں تھا
اس میں ان تضادات کا حل ہے، جن سے ہمارا سیاسی نظام ایک مدت سے دوچار ہے۔
اورکنٹرول لائن پر فائرنگ کے ساتھ جنگ کے خدشات بھی بڑھ جاتے ہیں۔
ہر دل سے خطا ہو جاتی ہے، بگڑو نہ خدارا، دل ہی تو ہے
زندگی خوشی رکشا ریل موٹریں ڈولی
احتجاجاً نہیں جاگا مری بیداری پر
میں ایک لمحے میں دنیا سمیٹ سکتا ہوں
اس پیسے سے قوم نے بنایا تو کچھ زیادہ نہیں لیکن بہت سارے طبقات کو فائدہ ضرور پہنچا۔
کہہ ڈالے قلندر نے اسرار کتاب آخر
بڑھتا ہے شوق غالب تیرے نہیں نہیں میں.
جیسے قندھارا تہذیب و تمدن تھی
گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو کہ میں
رہے گی کیا آبرو ہماری جو تو یہاں بے قرار ہوگا
وہ خاک کہ پروائے نشیمن نہیں رکھتی
میرا گلا خشک تھا
پیچ و تابِ دل نصیبِ خاطرِ آگاہ ہے
مسلماں کے لہو میں ہے سلیقہ دل نوازی کا
طرح سے گزاری